14
کال کے دوران رب کا پیغام
1 کال کے دوران رب یرمیاہ سے ہم کلام ہوا،
2 ”یہوداہ ماتم کر رہا ہے، اُس کے دروازوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ لوگ سوگ وار حالت میں فرش پر بیٹھے ہیں، اور یروشلم کی چیخیں آسمان تک بلند ہو رہی ہیں۔
3 امیر اپنے نوکروں کو پانی بھرنے بھیجتے ہیں، لیکن حوضوں کے پاس پہنچ کر پتا چلتا ہے کہ پانی نہیں ہے، اِس لئے وہ خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں۔ شرمندگی اور ندامت کے مارے وہ اپنے سروں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔
4 بارش نہ ہونے کی وجہ سے زمین میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے بھی شرم کے مارے اپنے سروں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔
5 گھاس نہیں ہے، اِس لئے ہرنی اپنے نومولود بچے کو چھوڑ دیتی ہے۔
6 جنگلی گدھے بنجر ٹیلوں پر کھڑے گیدڑوں کی طرح ہانپتے ہیں۔ ہریالی نہ ملنے کی وجہ سے وہ بےجان ہو رہے ہیں۔“
7 اے رب، ہمارے گناہ ہمارے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ توبھی اپنے نام کی خاطر ہم پر رحم کر۔ ہم مانتے ہیں کہ بُری طرح بےوفا ہو گئے ہیں، ہم نے تیرا ہی گناہ کیا ہے۔
8 اے اللہ، تُو اسرائیل کی اُمید ہے، تُو ہی مصیبت کے وقت اُسے چھٹکارا دیتا ہے۔ تو پھر ہمارے ساتھ تیرا سلوک ملک میں اجنبی کا سا کیوں ہے؟ تُو رات کو کبھی اِدھر کبھی اُدھر ٹھہرنے والے مسافر جیسا کیوں ہے؟
9 تُو کیوں اُس آدمی کی مانند ہے جو اچانک دم بخود ہو جاتا ہے، اُس سورمے کی مانند جو بےبس ہو کر بچا نہیں سکتا۔ اے رب، تُو تو ہمارے درمیان ہی رہتا ہے، اور ہم پر تیرے ہی نام کا ٹھپا لگا ہے۔ ہمیں ترک نہ کر!
اِس قوم کے لئے دعا مت کرنا
10 لیکن رب اِس قوم کے بارے میں فرماتا ہے، ”یہ لوگ آوارہ پھرنے کے شوقین ہیں، یہ اپنے پاؤں کو روک ہی نہیں سکتے۔ مَیں اُن سے ناخوش ہوں۔ اب مجھے اُن کے غلط کام یاد رہیں گے، اب مَیں اُن کے گناہوں کی سزا دوں گا۔“
11 رب مزید مجھ سے ہم کلام ہوا، ”اِس قوم کی بہبودی کے لئے دعا مت کرنا۔
12 گو یہ روزہ بھی رکھیں توبھی مَیں اِن کی التجاؤں پر دھیان نہیں دوں گا۔ گو یہ بھسم ہونے والی اور غلہ کی قربانیاں پیش بھی کریں توبھی مَیں اِن سے خوش نہیں ہوں گا بلکہ اِنہیں کال، تلوار اور بیماریوں سے نیست و نابود کر دوں گا۔“
13 یہ سن کر مَیں نے اعتراض کیا، ”اے رب قادرِ مطلق، نبی اِنہیں بتاتے آئے ہیں، ’نہ قتل و غارت کا خطرہ ہو گا، نہ کال پڑے گا بلکہ مَیں یہیں تمہارے لئے امن و امان کا پکا بندوبست کر لوں گا‘۔“
14 رب نے جواب دیا، ”نبی میرا نام لے کر جھوٹی پیش گوئیاں بیان کر رہے ہیں۔ مَیں نے نہ اُنہیں بھیجا، نہ اُنہیں کوئی ذمہ داری دی اور نہ اُن سے ہم کلام ہوا۔ یہ تمہیں جھوٹی رویائیں، فضول پیش گوئیاں اور اپنے دل کے وہم سناتے رہے ہیں۔“
15 چنانچہ رب فرماتا ہے، ”یہ نبی تلوار اور کال کی زد میں آ کر مر جائیں گے۔ کیونکہ گو مَیں نے اُنہیں نہیں بھیجا توبھی یہ میرے نام میں نبوّت کر کے کہتے ہیں کہ ملک میں نہ قتل و غارت کا خطرہ ہو گا، نہ کال پڑے گا۔
16 اور جن لوگوں کو وہ اپنی نبوّتیں سناتے رہے ہیں وہ تلوار اور کال کا شکار بن جائیں گے، اُن کی لاشیں یروشلم کی گلیوں میں پھینک دی جائیں گی۔ اُنہیں دفنانے والا کوئی نہیں ہو گا، نہ اُن کو، نہ اُن کی بیویوں کو اور نہ اُن کے بیٹے بیٹیوں کو۔ یوں مَیں اُن پر اُن کی اپنی بدکاری نازل کروں گا۔
اے رب، ہمیں معاف کر!
17 اے یرمیاہ، اُنہیں یہ کلام سنا، ’دن رات میرے آنسو بہہ رہے ہیں۔ وہ رُک نہیں سکتے، کیونکہ میری قوم، میری کنواری بیٹی کو گہری چوٹ لگ گئی ہے، ایسا زخم جو بھر نہیں سکتا۔
18 دیہات میں جا کر مجھے وہ سب نظر آتے ہیں جو تلوار سے قتل کئے گئے ہیں۔ جب مَیں شہر میں واپس آتا ہوں تو چاروں طرف کال کے بُرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ نبی اور امام ملک میں مارے مارے پھر رہے ہیں، اور اُنہیں معلوم نہیں کہ کیا کریں‘۔“
19 اے رب، کیا تُو نے یہوداہ کو سراسر رد کیا ہے؟ کیا تجھے صیون سے اِتنی گھن آتی ہے؟ تُو نے ہمیں اِتنی بار کیوں مارا کہ ہمارا علاج ناممکن ہو گیا ہے؟ ہم امن و امان کے انتظار میں رہے، لیکن حالات ٹھیک نہ ہوئے۔ ہم شفا پانے کی اُمید رکھتے تھے، لیکن اِس کے بجائے ہم پر دہشت چھا گئی۔
20 اے رب، ہم اپنی بےدینی اور اپنے باپ دادا کا قصور تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے تیرا ہی گناہ کیا ہے۔
21 اپنے نام کی خاطر ہمیں حقیر نہ جان، اپنے جلالی تخت کی بےحرمتی ہونے نہ دے! ہمارے ساتھ اپنا عہد یاد کر، اُسے منسوخ نہ کر۔
22 کیا دیگر اقوام کے دیوتاؤں میں سے کوئی ہے جو بارش برسا سکے؟ یا کیا آسمان خود ہی بارشیں زمین پر بھیج دیتا ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ تُو ہی یہ سب کچھ کرتا ہے، اے رب ہمارے خدا۔ اِسی لئے ہم تجھ پر اُمید رکھتے ہیں۔ تُو ہی نے یہ سارا انتظام قائم کیا ہے۔