5
پہاڑی وعظ
بھیڑ کو دیکھ کر عیسیٰ پہاڑ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اُس کے شاگرد اُس کے پاس آئے اور وہ اُنہیں یہ تعلیم دینے لگا:
حقیقی خوشی
”مبارک ہیں وہ جن کی روح ضرورت مند ہے، کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔
مبارک ہیں وہ جو ماتم کرتے ہیں، کیونکہ اُنہیں تسلی دی جائے گی۔
مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں، کیونکہ وہ زمین ورثے میں پائیں گے۔
مبارک ہیں وہ جنہیں راست بازی کی بھوک اور پیاس ہے، کیونکہ وہ سیر ہو جائیں گے۔
مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں، کیونکہ اُن پر رحم کیا جائے گا۔
مبارک ہیں وہ جو خالص دل ہیں، کیونکہ وہ اللہ کو دیکھیں گے۔
مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں، کیونکہ وہ اللہ کے فرزند کہلائیں گے۔
10 مبارک ہیں وہ جن کو راست باز ہونے کے سبب سے ستایا جاتا ہے، کیونکہ اُنہیں آسمان کی بادشاہی ورثے میں ملے گی۔
11 مبارک ہو تم جب لوگ میری وجہ سے تمہیں لعن طعن کرتے، تمہیں ستاتے اور تمہارے بارے میں ہر قسم کی بُری اور جھوٹی بات کرتے ہیں۔ 12 خوشی مناؤ اور باغ باغ ہو جاؤ، تم کو آسمان پر بڑا اجر ملے گا۔ کیونکہ اِسی طرح اُنہوں نے تم سے پہلے نبیوں کو بھی ایذا پہنچائی تھی۔
تم نمک اور روشنی ہو
13 تم دنیا کا نمک ہو۔ لیکن اگر نمک کا ذائقہ جاتا رہے تو پھر اُسے کیونکر دوبارہ نمکین کیا جا سکتا ہے؟ وہ کسی بھی کام کا نہیں رہا بلکہ باہر پھینکا جائے گا جہاں وہ لوگوں کے پاؤں تلے روندا جائے گا۔
14 تم دنیا کی روشنی ہو۔ پہاڑ پر واقع شہر کی طرح تم کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ 15 جب کوئی چراغ جلاتا ہے تو وہ اُسے برتن کے نیچے نہیں رکھتا بلکہ شمع دان پر رکھ دیتا ہے جہاں سے وہ گھر کے تمام افراد کو روشنی دیتا ہے۔ 16 اِسی طرح تمہاری روشنی بھی لوگوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کام دیکھ کر تمہارے آسمانی باپ کو جلال دیں۔
شریعت
17 یہ نہ سمجھو کہ مَیں موسوی شریعت اور نبیوں کی باتوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ اُن کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ 18 مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں، جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے تب تک شریعت بھی قائم رہے گی — نہ اُس کا کوئی حرف، نہ اُس کا کوئی زیر یا زبر منسوخ ہو گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔ 19 جو اِن سب سے چھوٹے احکام میں سے ایک کو بھی منسوخ کرے اور لوگوں کو ایسا کرنا سکھائے اُسے آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا قرار دیا جائے گا۔ اِس کے مقابلے میں جو اِن احکام پر عمل کر کے اِنہیں سکھاتا ہے اُسے آسمان کی بادشاہی میں بڑا قرار دیا جائے گا۔ 20 کیونکہ مَیں تم کو بتاتا ہوں کہ اگر تمہاری راست بازی شریعت کے علما اور فریسیوں کی راست بازی سے زیادہ نہیں تو تم آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔
غصہ
21 تم نے سنا ہے کہ باپ دادا کو فرمایا گیا، ’قتل نہ کرنا۔ اور جو قتل کرے اُسے عدالت میں جواب دینا ہو گا۔‘ 22 لیکن مَیں تم کو بتاتا ہوں کہ جو بھی اپنے بھائی پر غصہ کرے اُسے عدالت میں جواب دینا ہو گا۔ اِسی طرح جو اپنے بھائی کو ’احمق‘ کہے اُسے یہودی عدالتِ عالیہ میں جواب دینا ہو گا۔ اور جو اُس کو ’بے وقوف!‘ کہے وہ جہنم کی آگ میں پھینکے جانے کے لائق ٹھہرے گا۔ 23 لہٰذا اگر تجھے بیت المُقدّس میں قربانی پیش کرتے وقت یاد آئے کہ تیرے بھائی کو تجھ سے کوئی شکایت ہے 24 تو اپنی قربانی کو وہیں قربان گاہ کے سامنے ہی چھوڑ کر اپنے بھائی کے پاس چلا جا۔ پہلے اُس سے صلح کر اور پھر واپس آ کر اللہ کو اپنی قربانی پیش کر۔
25 فرض کرو کہ کسی نے تجھ پر مقدمہ چلایا ہے۔ اگر ایسا ہو تو کچہری میں داخل ہونے سے پہلے پہلے جلدی سے جھگڑا ختم کر۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے جج کے حوالے کرے، جج تجھے پولیس افسر کے حوالے کرے اور نتیجے میں تجھ کو جیل میں ڈالا جائے۔ 26 مَیں تجھے سچ بتاتا ہوں، وہاں سے تُو اُس وقت تک نہیں نکل پائے گا جب تک جرمانے کی پوری پوری رقم ادا نہ کر دے۔
زناکاری
27 تم نے یہ حکم سن لیا ہے کہ ’زنا نہ کرنا۔‘ 28 لیکن مَیں تمہیں بتاتا ہوں، جو کسی عورت کو بُری خواہش سے دیکھتا ہے وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کر چکا ہے۔ 29 اگر تیری دائیں آنکھ تجھے گناہ کرنے پر اُکسائے تو اُسے نکال کر پھینک دے۔ اِس سے پہلے کہ تیرے پورے جسم کو جہنم میں ڈالا جائے بہتر یہ ہے کہ تیرا ایک ہی عضو جاتا رہے۔ 30 اور اگر تیرا دہنا ہاتھ تجھے گناہ کرنے پر اُکسائے تو اُسے کاٹ کر پھینک دے۔ اِس سے پہلے کہ تیرا پورا جسم جہنم میں جائے بہتر یہ ہے کہ تیرا ایک ہی عضو جاتا رہے۔
طلاق
31 یہ بھی فرمایا گیا ہے، ’جو بھی اپنی بیوی کو طلاق دے وہ اُسے طلاق نامہ لکھ دے۔‘ 32 لیکن مَیں تم کو بتاتا ہوں کہ اگر کسی کی بیوی نے زنا نہ کیا ہو توبھی شوہر اُسے طلاق دے تو وہ اُس سے زنا کراتا ہے۔ اور جو طلاق شدہ عورت سے شادی کرے وہ زنا کرتا ہے۔
قَسم مت کھانا
33 تم نے یہ بھی سنا ہے کہ باپ دادا کو فرمایا گیا، ’جھوٹی قَسم مت کھانا بلکہ جو وعدے تُو نے رب سے قَسم کھا کر کئے ہوں اُنہیں پورا کرنا۔‘ 34 لیکن مَیں تمہیں بتاتا ہوں، قَسم بالکل نہ کھانا۔ نہ ’آسمان کی قَسم‘ کیونکہ آسمان اللہ کا تخت ہے، 35 نہ ’زمین کی‘ کیونکہ زمین اُس کے پاؤں کی چوکی ہے۔ ’یروشلم کی قَسم‘ بھی نہ کھانا کیونکہ یروشلم عظیم بادشاہ کا شہر ہے۔ 36 یہاں تک کہ اپنے سر کی قَسم بھی نہ کھانا، کیونکہ تُو اپنا ایک بال بھی کالا یا سفید نہیں کر سکتا۔ 37 صرف اِتنا ہی کہنا، ’جی ہاں‘ یا ’جی نہیں۔‘ اگر اِس سے زیادہ کہو تو یہ ابلیس کی طرف سے ہے۔
بدلہ لینا
38 تم نے سنا ہے کہ یہ فرمایا گیا ہے، ’آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت۔‘ 39 لیکن مَیں تم کو بتاتا ہوں کہ بدکار کا مقابلہ مت کرنا۔ اگر کوئی تیرے دہنے گال پر تھپڑ مارے تو اُسے دوسرا گال بھی پیش کر دے۔ 40 اگر کوئی تیری قمیص لینے کے لئے تجھ پر مقدمہ کرنا چاہے تو اُسے اپنی چادر بھی دے دینا۔ 41 اگر کوئی تجھ کو اُس کا سامان اُٹھا کر ایک کلو میٹر جانے پر مجبور کرے تو اُس کے ساتھ دو کلو میٹر چلا جانا۔ 42 جو تجھ سے کچھ مانگے اُسے دے دینا اور جو تجھ سے قرض لینا چاہے اُس سے انکار نہ کرنا۔
دشمن سے محبت
43 تم نے سنا ہے کہ فرمایا گیا ہے، ’اپنے پڑوسی سے محبت رکھنا اور اپنے دشمن سے نفرت کرنا۔‘ 44 لیکن مَیں تم کو بتاتا ہوں، اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اُن کے لئے دعا کرو جو تم کو ستاتے ہیں۔ 45 پھر تم اپنے آسمانی باپ کے فرزند ٹھہرو گے، کیونکہ وہ اپنا سورج سب پر طلوع ہونے دیتا ہے، خواہ وہ اچھے ہوں یا بُرے۔ اور وہ سب پر بارش برسنے دیتا ہے، خواہ وہ راست باز ہوں یا ناراست۔ 46 اگر تم صرف اُن ہی سے محبت کرو جو تم سے کرتے ہیں تو تم کو کیا اجر ملے گا؟ ٹیکس لینے والے بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ 47 اور اگر تم صرف اپنے بھائیوں کے لئے سلامتی کی دعا کرو تو کون سی خاص بات کرتے ہو؟ غیریہودی بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ 48 چنانچہ ویسے ہی کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔