30
صِقلاج کی تباہی اور داؤد کا بدلہ
1 تیسرے دن جب داؤد صِقلاج پہنچا تو دیکھا کہ شہر کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ اُن کی غیرموجودگی میں عمالیقیوں نے دشتِ نجب میں آ کر صِقلاج پر بھی حملہ کیا تھا۔ شہر کو جلا کر
2 وہ تمام باشندوں کو چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ لیکن کوئی ہلاک نہیں ہوا تھا بلکہ وہ سب کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
3 چنانچہ جب داؤد اور اُس کے آدمی واپس آئے تو دیکھا کہ شہر بھسم ہو گیا ہے اور تمام بال بچے چھن گئے ہیں۔
4 وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، اِتنے روئے کہ آخرکار رونے کی سکت ہی نہ رہی۔
5 داؤد کی دو بیویوں اخی نوعم یزرعیلی اور ابی جیل کرملی کو بھی اسیر کر لیا گیا تھا۔
6 داؤد کی جان بڑے خطرے میں آ گئی، کیونکہ اُس کے مرد غم کے مارے آپس میں اُسے سنگسار کرنے کی باتیں کرنے لگے۔ کیونکہ بیٹے بیٹیوں کے چھن جانے کے باعث سب سخت رنجیدہ تھے۔ لیکن داؤد نے رب اپنے خدا میں پناہ لے کر تقویت پائی۔
7 اُس نے ابیاتر بن اخی مَلِک کو حکم دیا، ”قرعہ ڈالنے کے لئے امام کا بالاپوش لے آئیں۔“ جب امام بالاپوش لے آیا
8 تو داؤد نے رب سے دریافت کیا، ”کیا مَیں لٹیروں کا تعاقب کروں؟ کیا مَیں اُن کو جا لوں گا؟“ رب نے جواب دیا، ”اُن کا تعاقب کر! تُو نہ صرف اُنہیں جا لے گا بلکہ اپنے لوگوں کو بچا بھی لے گا۔“
9-10 تب داؤد اپنے 600 مردوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ چلتے چلتے وہ بسور ندی کے پاس پہنچ گئے۔ 200 افراد اِتنے نڈھال ہو گئے تھے کہ وہ وہیں رُک گئے۔ باقی 400 مرد ندی کو پار کر کے آگے بڑھے۔
11 راستے میں اُنہیں کھلے میدان میں ایک مصری آدمی ملا اور اُسے داؤد کے پاس لا کر کچھ پانی پلایا اور کچھ روٹی،
12 انجیر کی ٹکی کا ٹکڑا اور کشمش کی دو ٹکیاں کھلائیں۔ تب اُس کی جان میں جان آ گئی۔ اُسے تین دن اور رات سے نہ کھانا، نہ پانی ملا تھا۔
13 داؤد نے پوچھا، ”تمہارا مالک کون ہے، اور تم کہاں کے ہو؟“ اُس نے جواب دیا، ”مَیں مصری غلام ہوں، اور ایک عمالیقی میرا مالک ہے۔ جب مَیں سفر کے دوران بیمار ہو گیا تو اُس نے مجھے یہاں چھوڑ دیا۔ اب مَیں تین دن سے یہاں پڑا ہوں۔
14 پہلے ہم نے کریتیوں یعنی فلستیوں کے جنوبی علاقے اور پھر یہوداہ کے علاقے پر حملہ کیا تھا، خاص کر یہوداہ کے جنوبی حصے پر جہاں کالب کی اولاد آباد ہے۔ شہر صِقلاج کو ہم نے بھسم کر دیا تھا۔“
15 داؤد نے سوال کیا، ”کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہ لٹیرے کس طرف گئے ہیں؟“ مصری نے جواب دیا، ”پہلے اللہ کی قَسم کھا کر وعدہ کریں کہ آپ مجھے نہ ہلاک کریں گے، نہ میرے مالک کے حوالے کریں گے۔ پھر مَیں آپ کو اُن کے پاس لے جاؤں گا۔“
16 چنانچہ وہ داؤد کو عمالیقی لٹیروں کے پاس لے گیا۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ عمالیقی اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے بڑا جشن منا رہے ہیں۔ وہ ہر طرف کھانا کھاتے اور مَے پیتے ہوئے نظر آ رہے تھے، کیونکہ جو مال اُنہوں نے فلستیوں اور یہوداہ کے علاقے سے لُوٹ لیا تھا وہ بہت زیادہ تھا۔
17 صبح سویرے جب ابھی تھوڑی روشنی تھی داؤد نے اُن پر حملہ کیا۔ لڑتے لڑتے اگلے دن کی شام ہو گئی۔ دشمن ہار گیا اور سب کے سب ہلاک ہوئے۔ صرف 400 جوان بچ گئے جو اونٹوں پر سوار ہو کر فرار ہو گئے۔
18 داؤد نے سب کچھ چھڑا لیا جو عمالیقیوں نے لُوٹ لیا تھا۔ اُس کی دو بیویاں بھی صحیح سلامت مل گئیں۔
19 نہ بچہ نہ بزرگ، نہ بیٹا نہ بیٹی، نہ مال یا کوئی اَور لُوٹی ہوئی چیز رہی جو داؤد واپس نہ لایا۔
20 عمالیقیوں کے گائےبَیل اور بھیڑبکریاں داؤد کا حصہ بن گئیں، اور اُس کے لوگوں نے اُنہیں اپنے ریوڑوں کے آگے آگے ہانک کر کہا، ”یہ لُوٹے ہوئے مال میں سے داؤد کا حصہ ہے۔“
مالِ غنیمت کی تقسیم
21 جب داؤد اپنے آدمیوں کے ساتھ واپس آ رہا تھا تو جو 200 آدمی نڈھال ہونے کے باعث بسور ندی سے آگے نہ جا سکے وہ بھی اُن سے آملے۔ داؤد نے سلام کر کے اُن کا حال پوچھا۔
22 لیکن باقی آدمیوں میں کچھ شرارتی لوگ بڑبڑانے لگے، ”یہ ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے آگے نہ نکلے، اِس لئے اِنہیں لُوٹے ہوئے مال کا حصہ پانے کا حق نہیں۔ بس وہ اپنے بال بچوں کو لے کر چلے جائیں۔“
23 لیکن داؤد نے انکار کیا۔ ”نہیں، میرے بھائیو، ایسا مت کرنا! یہ سب کچھ رب کی طرف سے ہے۔ اُسی نے ہمیں محفوظ رکھ کر حملہ آور لٹیروں پر فتح بخشی۔
24 تو پھر ہم آپ کی بات کس طرح مانیں؟ جو پیچھے رہ کر سامان کی حفاظت کر رہا تھا اُسے بھی اُتنا ہی ملے گا جتنا کہ اُسے جو دشمن سے لڑنے گیا تھا۔ ہم یہ سب کچھ برابر برابر تقسیم کریں گے۔“
25 اُس وقت سے یہ اصول بن گیا۔ داؤد نے اِسے اسرائیلی قانون کا حصہ بنا دیا جو آج تک جاری ہے۔
26 صِقلاج واپس پہنچنے پر داؤد نے لُوٹے ہوئے مال کا ایک حصہ یہوداہ کے بزرگوں کے پاس بھیج دیا جو اُس کے دوست تھے۔ ساتھ ساتھ اُس نے پیغام بھیجا، ”آپ کے لئے یہ تحفہ رب کے دشمنوں سے لُوٹ لیا گیا ہے۔“
27 یہ تحفے اُس نے ذیل کے شہروں میں بھیج دیئے: بیت ایل، رامات نجب، یتیر،
28 عروعیر، سِفموت، اِستموع،
29-31 رکل، حُرمہ، بورعسان، عتاک اور حبرون۔ اِس کے علاوہ اُس نے تحفے یرحمئیلیوں، قینیوں اور باقی اُن تمام شہروں کو بھیج دیئے جن میں وہ کبھی ٹھہرا تھا۔