رُوتؔ
کی کِتاب
1
نعومیؔ کے شوہر اَور بیٹوں کی موت
جِن دِنوں (بنی اِسرائیل کی) قیادت قُضاتیوں کے ہاتھوں میں تھی اُن دِنوں مُلک میں قحط پڑا اَور یہُودیؔہ کے بیت لحمؔ کا ایک شخص اَپنی بیوی اَور دو بیٹوں سمیت چند دِنوں کے لیٔے مُوآب کے مُلک میں جا کر مُقیم ہو گیا۔ اُس شخص کا نام الیمَلِکؔ اَور اُس کی بیوی کا نام نعومیؔ تھا اَور اُس کے دو بیٹوں کے نام محلونؔ اَور کِلیونؔ تھے۔ وہ یہُودیؔہ کے بیت لحمؔ کے اِفراتی گھرانے سے تھے۔ وہ مُوآب کے مُلک میں چلے گیٔے اَور وہیں رہنے لگے۔
اَیسا ہُوا کہ نعومیؔ کا خَاوند الیمَلِکؔ مَر گیا اَور وہ اَپنے دو دونوں ںبیٹوں کے ساتھ باقی رہ گئی۔ بیٹوں نے دو مُوآبی عورتوں کے ساتھ بیاہ کر لیا، جِن میں سے ایک کا نام عرفہؔ اَور دُوسری کا رُوتؔ تھا۔ تقریباً دس بَرس وہاں رہنے کے بعد، محلونؔ اَور کِلیونؔ بھی مَر گیٔے، اَور نعومیؔ اَپنے دونوں بیٹوں اَور خَاوند سے محروم ہو گئی۔
نعومیؔ اَور رُوتؔ کی بیت لحم کو واپسی
جَب نعومیؔ نے مُوآب کے مُلک میں یہ سُنا کہ یَاہوِہ نے اَپنے لوگوں پر مہربان ہوکر، اُنہیں روٹی مہیا کی ہے تو وہ اَپنی دونوں بہوؤں سمیت وہاں سے اَپنے وطن جانے کی تیّاری کرنے لگی۔ اُس نے اَپنی دو بہوؤں کو ساتھ لیا اَور اُس مقام کو خیرباد کہا جہاں وہ رہتی تھی اَور اُس شاہراہ پر ہو لی جو یہُودیؔہ کے مُلک کی طرف جاتی تھی۔
نعومیؔ نے اَپنی بہوؤں سے کہا: ”تُم دونوں اَپنے اَپنے میکے لَوٹ جاؤ۔ جَیسے تُم اَپنے مرحُوم شوہروں اَور مُجھ سے مہربانی سے پیش آئیں وَیسے ہی یَاہوِہ تُم پر بھی مہربان ہو۔ یَاہوِہ کرے کہ تُم پھر سے بیاہ کر لو اَور اَپنے اَپنے خَاوند کے گھر میں راحت پاؤ۔“
تَب اُس نے اُنہیں چُوما اَور وہ زار زار رونے لگیں۔ 10 اَور اُس سے کہا، ”ہم تو تمہارے ساتھ لَوٹ کر تمہارے ہی لوگوں میں جایٔیں گی۔“
11 لیکن نعومیؔ نے کہا: ”میری بیٹیو! تُم اَپنے اَپنے گھر لَوٹ جاؤ۔ تُم میرے ساتھ کیوں آئیں گے؟ کیا میرے اَور بیٹے ہونے والے ہیں جو تمہارے خَاوند بَن سکیں؟ 12 جاؤ، گھر لَوٹ جاؤ اَے میری بیٹیو! اَب مَیں اُتنی بُوڑھی ہو چُکی ہُوں کہ دُوسرا خَاوند نہیں کر سکتی۔ اگر مَیں یہ سوچنے لگوں کہ میرے لیٔے اَب بھی اُمّید باقی ہے اَور اگر آج میرا خَاوند ہوتا اَور مَیں بھی بیٹے جنتی۔ 13 تو کیا تُم اُن کے جَوان ہونے تک اِنتظار کرتیں؟ کیا تُم اُن کی خاطِر غَیر شادی شُدہ رہتیں؟ نہیں میری بیٹیو! اَیسا سوچنا میرے لیٔے بہ نِسبت تمہارے زِیادہ تلخ ہے کیونکہ یَاہوِہ کا ہاتھ میرے خِلاف اُٹھ چُکاہے!“
14 اِس پر وہ پھر رونے لگیں۔ تَب عرفہؔ نے اَپنی ساس کو چُوما اَور اُسے اَلوِداع کہا، لیکن رُوتؔ اُس سے لپٹ گئی۔
15 نعومیؔ نے کہا: ”دیکھو تمہاری جٹھانی اَپنے لوگوں اَور اَپنے معبُودوں کے پاس لَوٹ رہی ہے۔ تُم بھی اُس کے ساتھ چلی جاؤ۔“
16 لیکن رُوتؔ نے کہا: ”تُم اِصرار نہ کر کہ مَیں تُجھے چھوڑ دُوں یا تُجھ سے بھاگ کر دُور چلی جاؤں۔ جہاں تُم جاؤگی میں بھی وہاں چلُوں گی اَور جہاں تُم رہوگی میں بھی وہیں رہُوں گی۔ تمہارے لوگ میرے لوگ ہوں گے اَور تمہارا خُدا میرا خُدا ہوگا۔ 17 جہاں تُم مَروگی میں بھی وہیں مروں گی، اَور وہیں دفن ہو جاؤں گی۔ اگر موت کے سِوا کویٔی اَور چیز مُجھے تُجھ سے جُدا کرے تو یَاہوِہ مُجھ سے اَیسا ہی بَلکہ اِس سے بھی زِیادہ سختی سے پیش آئے۔“ 18 جَب نعومیؔ نے دیکھا کہ رُوتؔ نے اُس کے ساتھ جانے کی ٹھان لی ہے تو اُس نے اَور اِصرار نہ کیا۔
19 اَور وہ دونوں چلتی رہیں یہاں تک کہ بیت لحمؔ جا پہُنچیں۔ جَب وہ بیت لحمؔ پہُنچیں، تو اُن کی وجہ سے سارے شہر میں دھوم مچ گئی اَور عورتیں کہنے لگیں، ”یہ تو نعومیؔ ہے۔ اُس کے سِوا کون ہو سکتی ہے؟“
20 اُس نے نعومیؔ سے کہا: ”مُجھے نعومیؔ* نہ کہو، بَلکہ مارہؔ کہو کیونکہ قادرمُطلق نے میری زندگی تلخ کر دی ہے۔ 21 میں تو بھری پُوری گئی تھی لیکن یَاہوِہ مُجھے خالی واپس لے آئے، مُجھے نعومیؔ کیوں کہتی ہو؟ یَاہوِہ قادرمُطلق نے مُجھ پر آفت نازل کی اَور یَاہوِہ نے مُجھے بدنصیب کر دیا۔“
22 جَب نعومیؔ مُوآب سے اَپنی مُوآبی بہُو رُوتؔ کے ہمراہ لَوٹی، تو بیت لحمؔ میں جَو کی فصل کاٹنے کا موسم شروع ہو چُکاتھا۔
* 1:20 نعومیؔ یعنی خوشگوار 1:20 مارہؔ یعنی تلخ