10
دانیال کی آخری رویا
1 فارس کے بادشاہ خورس کی حکومت کے تیسرے سال میں بیل طَشَضَر یعنی دانیال پر ایک بات ظاہر ہوئی جو یقینی ہے اور جس کا تعلق ایک بڑی مصیبت سے ہے۔ اُسے رویا میں اِس پیغام کی سمجھ حاصل ہوئی۔
2 اُن دنوں میں مَیں، دانیال تین پورے ہفتے ماتم کر رہا تھا۔ 3 نہ مَیں نے عمدہ کھانا کھایا، نہ گوشت یا مَے میرے ہونٹوں تک پہنچی۔ تین پورے ہفتے مَیں نے ہر خوشبودار تیل سے پرہیز کیا۔ 4 پہلے مہینے کے 24ویں دن*پہلے مہینے کے 24ویں دن: 23 اپریل۔ مَیں بڑے دریا دِجلہ کے کنارے پر کھڑا تھا۔ 5 مَیں نے نگاہ اُٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کتان سے ملبّس آدمی کھڑا ہے جس کی کمر میں خالص سونے کا پٹکا بندھا ہوا ہے۔ 6 اُس کا جسم پکھراج†پکھراج: topas جیسا تھا، اُس کا چہرہ آسمانی بجلی کی طرح چمک رہا تھا، اور اُس کی آنکھیں بھڑکتی مشعلوں کی مانند تھیں۔ اُس کے بازو اور پاؤں پالش کئے ہوئے پیتل کی طرح دمک رہے تھے۔ بولتے وقت یوں لگ رہا تھا کہ بڑا ہجوم شور مچا رہا ہے۔
7 صرف مَیں، دانیال نے یہ رویا دیکھی۔ میرے ساتھیوں نے اُسے نہ دیکھا۔ توبھی اچانک اُن پر اِتنی دہشت طاری ہوئی کہ وہ بھاگ کر چھپ گئے۔ 8 چنانچہ مَیں اکیلا ہی رہ گیا۔ لیکن یہ عظیم رویا دیکھ کر میری ساری طاقت جاتی رہی۔ میرے چہرے کا رنگ ماند پڑ گیا اور مَیں بےبس ہوا۔ 9 پھر وہ بولنے لگا۔ اُسے سنتے ہی مَیں منہ کے بل گر کر مدہوش حالت میں زمین پر پڑا رہا۔ 10 تب ایک ہاتھ نے مجھے چھو کر ہلایا۔ اُس کی مدد سے مَیں اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل ہو سکا۔
11 وہ آدمی بولا، ”اے دانیال، تُو اللہ کے نزدیک بہت گراں قدر ہے! جو باتیں مَیں تجھ سے کروں گا اُن پر غور کر۔ کھڑا ہو جا، کیونکہ اِس وقت مجھے تیرے ہی پاس بھیجا گیا ہے۔“ تب مَیں تھرتھراتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ 12 اُس نے اپنی بات جاری رکھی، ”اے دانیال، مت ڈرنا! جب سے تُو نے سمجھ حاصل کرنے اور اپنے خدا کے سامنے جھکنے کا پورا ارادہ کر رکھا ہے، اُسی دن سے تیری سنی گئی ہے۔ مَیں تیری دعاؤں کے جواب میں آ گیا ہوں۔ 13 لیکن فارسی بادشاہی کا سردار 21 دن تک میرے راستے میں کھڑا رہا۔ پھر میکائیل جو اللہ کے سردار فرشتوں میں سے ایک ہے میری مدد کرنے آیا، اور میری جان فارسی بادشاہی کے اُس سردار کے ساتھ لڑنے سے چھوٹ گئی۔ 14 مَیں تجھے وہ کچھ سنانے کو آیا ہوں جو آخری دنوں میں تیری قوم کو پیش آئے گا۔ کیونکہ رویا کا تعلق آنے والے وقت سے ہے۔“
15 جب وہ میرے ساتھ یہ باتیں کر رہا تھا تو مَیں خاموشی سے نیچے زمین کی طرف دیکھتا رہا۔ 16 پھر جو آدمی سا لگ رہا تھا اُس نے میرے ہونٹوں کو چھو دیا، اور مَیں منہ کھول کر بولنے لگا۔ مَیں نے اپنے سامنے کھڑے فرشتے سے کہا، ”اے میرے آقا، یہ رویا دیکھ کر مَیں دردِ زہ میں مبتلا عورت کی طرح پیچ و تاب کھانے لگا ہوں۔ میری طاقت جاتی رہی ہے۔ 17 اے میرے آقا، آپ کا خادم کس طرح آپ سے بات کر سکتا ہے؟ میری طاقت تو جواب دے گئی ہے، سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔“
18 جو آدمی سا لگ رہا تھا اُس نے مجھے ایک بار پھر چھو کر تقویت دی 19 اور بولا، ”اے تُو جو اللہ کی نظر میں گراں قدر ہے، مت ڈرنا! تیری سلامتی ہو۔ حوصلہ رکھ، مضبوط ہو جا!“ جوں ہی اُس نے مجھ سے بات کی مجھے تقویت ملی، اور مَیں بولا، ”اب میرے آقا بات کریں، کیونکہ آپ نے مجھے تقویت دی ہے۔“
20 اُس نے کہا، ”کیا تُو میرے آنے کا مقصد جانتا ہے؟ جلد ہی مَیں دوبارہ فارس کے سردار سے لڑنے چلا جاؤں گا۔ اور اُس سے نپٹنے کے بعد یونان کا سردار آئے گا۔ 21 لیکن پہلے مَیں تیرے سامنے وہ کچھ بیان کرتا ہوں جو ’سچائی کی کتاب‘ میں لکھا ہے۔ (اِن سرداروں سے لڑنے میں میری مدد کوئی نہیں کرتا سوائے تمہارے سردار فرشتے میکائیل کے۔