13
1 یہ سب کچھ مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے کانوں سے سن کر سمجھ لیا ہے۔ 2 علم کے لحاظ سے مَیں تمہارے برابر ہوں۔ اِس ناتے سے مَیں تم سے کم نہیں ہوں۔ 3 لیکن مَیں قادرِ مطلق سے ہی بات کرنا چاہتا ہوں، اللہ کے ساتھ ہی مباحثہ کرنے کی آرزو رکھتا ہوں۔
4 جہاں تک تمہارا تعلق ہے، تم سب فریب دہ لیپ لگانے والے اور بےکار ڈاکٹر ہو۔ 5 کاش تم سراسر خاموش رہتے! ایسا کرنے سے تمہاری حکمت کہیں زیادہ ظاہر ہوتی۔ 6 مباحثے میں ذرا میرا موقف سنو، عدالت میں میرے بیانات پر غور کرو!
7 کیا تم اللہ کی خاطر کج رَو باتیں پیش کرتے ہو، کیا اُسی کی خاطر جھوٹ بولتے ہو؟ 8 کیا تم اُس کی جانب داری کرنا چاہتے ہو، اللہ کے حق میں لڑنا چاہتے ہو؟ 9 سوچ لو، اگر وہ تمہاری جانچ کرے تو کیا تمہاری بات بنے گی؟ کیا تم اُسے یوں دھوکا دے سکتے ہو جس طرح انسان کو دھوکا دیا جاتا ہے؟
10 اگر تم خفیہ طور پر بھی جانب داری دکھاؤ تو وہ تمہیں ضرور سخت سزا دے گا۔ 11 کیا اُس کا رُعب تمہیں خوف زدہ نہیں کرے گا؟ کیا تم اُس سے سخت دہشت نہیں کھاؤ گے؟ 12 پھر جن کہاوتوں کی یاد تم دلاتے رہتے ہو وہ راکھ کی امثال ثابت ہوں گی، پتا چلے گا کہ تمہاری باتیں مٹی کے الفاظ ہیں۔
13 خاموش ہو کر مجھ سے باز آؤ! جو کچھ بھی میرے ساتھ ہو جائے، مَیں بات کرنا چاہتا ہوں۔ 14 مَیں اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار ہوں، مَیں اپنی جان پر کھیلوں گا۔ 15 شاید وہ مجھے مار ڈالے۔ کوئی بات نہیں، کیونکہ میری اُمید جاتی رہی ہے۔ جو کچھ بھی ہو مَیں اُسی کے سامنے اپنی راہوں کا دفاع کروں گا۔ 16 اور اِس میں مَیں پناہ لیتا ہوں کہ بےدین اُس کے حضور آنے کی جرأت نہیں کرتا۔
17 دھیان سے میرے الفاظ سنو، اپنے کان میرے بیانات پر دھرو۔ 18 تمہیں پتا چلے گا کہ مَیں نے احتیاط اور ترتیب سے اپنا معاملہ تیار کیا ہے۔ مجھے صاف معلوم ہے کہ مَیں حق پر ہوں! 19 اگر کوئی مجھے مجرم ثابت کر سکے تو مَیں چپ ہو جاؤں گا، دم چھوڑنے تک خاموش رہوں گا۔
ایوب کی مایوسی میں دعا
20 اے اللہ، میری صرف دو درخواستیں منظور کر تاکہ مجھے تجھ سے چھپ جانے کی ضرورت نہ ہو۔ 21 پہلے، اپنا ہاتھ مجھ سے دُور کر تاکہ تیرا خوف مجھے دہشت زدہ نہ کرے۔ 22 دوسرے، اِس کے بعد مجھے بُلا تاکہ مَیں جواب دوں، یا مجھے پہلے بولنے دے اور تُو ہی اِس کا جواب دے۔
23 مجھ سے کتنے گناہ اور غلطیاں ہوئی ہیں؟ مجھ پر میرا جرم اور میرا گناہ ظاہر کر! 24 تُو اپنا چہرہ مجھ سے چھپائے کیوں رکھتا ہے؟ تُو مجھے کیوں اپنا دشمن سمجھتا ہے؟ 25 کیا تُو ہَوا کے جھونکوں کے اُڑائے ہوئے پتے کو دہشت کھلانا چاہتا، خشک بھوسے کا تعاقب کرنا چاہتا ہے؟
26 یہ تیرا ہی فیصلہ ہے کہ مَیں تلخ تجربوں سے گزروں، تیری ہی مرضی ہے کہ مَیں اپنی جوانی کے گناہوں کی سزا پاؤں۔*سزا پاؤں: لفظی ترجمہ: سزا میراث میں پاؤں۔ 27 تُو میرے پاؤں کو کاٹھ میں ٹھونک کر میری تمام راہوں کی پہرا داری کرتا ہے۔ تُو میرے ہر ایک نقشِ قدم پر دھیان دیتا ہے، 28 گو مَیں مَے کی گھسی پھٹی مشک اور کیڑوں کا خراب کیا ہوا لباس ہوں۔