18
اَبشالومؔ کی موت
1 اَور داویؔد نے اُن مَردوں کو جو اُن کے ساتھ تھے جمع کرکے گِنا اَور ہر ہزار اَور ہر سَو آدمیوں کی ٹکڑیوں پر سردار مُقرّر کئے۔
2 اَور داویؔد نے جِن فَوجیوں کو روانہ کیا اُن کا ایک تہائی یُوآبؔ کے، ایک تہائی یُوآبؔ کے بھایٔی ابیشائی بِن ضرویاہؔ کے، اَور ایک تہائی گِتّی اِتّی کے ماتحت تھا اَور بادشاہ نے اُن لوگوں سے کہا، ”میں خُود بھی ضروُر تمہارے ساتھ چلُوں گا۔“
3 لیکن لوگوں نے کہا، ”آپ کو جانے کی ضروُرت نہیں۔ اگر ہم بھاگنے پر مجبُور ہُوئے تو وہ ہماری پروا نہیں کریں گے اَور خواہ ہم میں سے آدھے بھی مارے جایٔیں وہ پروا نہیں کریں گے۔ لیکن آپ ہمارے دس ہزار کے برابر ہو۔ تمہارے لیٔے بہتر یہی ہے کہ تُم شہر میں رہ کر ہی ہماری مدد کریں۔“
4 بادشاہ نے کہا، ”جو کچھ تُمہیں بہتر مَعلُوم ہوتاہے میں وُہی کروں گا۔“
لہٰذا جَب وہ لوگ سَو سَو اَور ہزار ہزار کی ٹکڑیوں میں باہر نکلے تو بادشاہ پھاٹک کے پاس کھڑے رہے۔
5 اَور بادشاہ نے یُوآبؔ، ابیشائی اَور اِتّی کو حُکم دیا، ”میری خاطِر اُس جَوان اَبشالومؔ کے ساتھ نرمی سے پیش آنا۔“ جَب بادشاہ نے ہر ایک سردار کو اَبشالومؔ کے متعلّق تاکید کی تو تمام لوگ سُن رہے تھے۔
6 سَو وہ لوگ بنی اِسرائیل سے لڑنے کے لیٔے روانہ ہُوئے اَور لڑائی اِفرائیمؔ کے جنگل میں ہُوئی۔
7 اَور اِسرائیل کی فَوج نے داویؔد کے آدمیوں سے شِکست دِلائی اَور اُس دِن اُتنی زِیادہ خُونریزی ہُوئی کہ بیس ہزار آدمی مارےگئے۔
8 وہ لڑائی سارے علاقہ میں پھیل گئی اَور اُس دِن بیشتر جانیں تلوار کی بجائے اُس جنگل کا لقمہ بَن گئیں۔
9 اَور اِتّفاقاً اَبشالومؔ داویؔد کے آدمیوں کے سامنے آ گیا۔ وہ اَپنے خچّر پر سوار تھا اَور جَب وہ خچّر تیز رفتار کے ساتھ ایک بڑے گھنے بلُوط کے درخت کے نیچے سے گزرا تو اَبشالومؔ کا سَر اُس درخت کی شاخوں میں پھنس گیا اَور وہ خچّر جِس پر وہ سوار تھا اُس کے نیچے سے نکل گیا اَور وہ ہَوا میں لٹکتا رہ گیا۔
10 جَب اُن آدمیوں میں سے ایک نے یہ دیکھا تو اُس نے یُوآبؔ کو خبر دی کہ، ”مَیں نے اَبشالومؔ کو ایک بلُوط کے درخت میں لٹکا ہُوا دیکھاہے۔“
11 یُوآبؔ نے اُس سے جِس نے یہ خبر دی تھی کہا: ”کیا! تُونے اُس جنگجو کو لٹکا دیکھا؟ تو اُسے وہیں کیوں نہ مار گرایا کیونکہ مَیں تُجھے دس ثاقل چاندی اَور ایک کمربند عطا کرتا۔“
12 لیکن اُس نے یُوآبؔ کو جَواب دیا، ”خواہ مُجھے ایک ہزار ثاقل چاندی بھی تول کر دے دی جاتی تَب بھی بادشاہ کے بیٹے پر ہاتھ نہ اُٹھاتا۔ کیونکہ ہم سُن رہے تھے جَب بادشاہ نے آپ کو ابیشائی اَور اِتّی کو تاکید کی تھی کہ جَوان اَبشالومؔ پر میری خاطِر آنچ نہ آنے پایٔے۔
13 اگر مَیں اُن سے دغا کرتا تو یہ بات بادشاہ سے پوشیدہ نہ رہتی اَور آپ بھی میری مدد سے ہاتھ دھو لیتے۔“
14 یُوآبؔ نے کہا، ”مَیں تیرے ساتھ یُوں ہی ٹھہرا نہیں رہ سَکتا۔“ لہٰذا اُس نے تین برچھی لیں اَور اُن سے اَبشالومؔ کے دِل کو چھید ڈالا۔ اَبشالومؔ بلُوط کے درخت میں ابھی زندہ ہی تھا
15 کہ یُوآبؔ کے دس سلح برداروں نے اَبشالومؔ کو گھیرلیا اَور قتل کر دیا۔
16 تَب یُوآبؔ نے نرسنگا پھُونکا اَور وہ لوگ جو بنی اِسرائیلیوں کا تعاقب کر رہے تھے لَوٹ آئے کیونکہ یُوآبؔ نے اُنہیں روک دیا تھا۔
17 اَور اُنہُوں نے اَبشالومؔ کو لے کر جنگل کے ایک بڑے گڑھے میں پھینک دیا اَور اُس کے اُوپر پتّھروں کا ایک بڑا ڈھیر لگا دیا۔ اِس دَوران تمام بنی اِسرائیلی اَپنے اَپنے خیموں کو بھاگ گیٔے۔
18 اَبشالومؔ نے اَپنے زندگی بھر ایک سُتون لے کر اُسے شاہی وادی میں اَپنی یادگار کے طور پر کھڑا کیا تھا اَور کیونکہ اِس نے سوچا، ”میرے پاس اَپنے نام کی یاد کو جاری رکھنے کے لئے کوئی بیٹا نہیں ہے۔“ وہ آج تک اَبشالومؔ کی یادگار کہلاتی ہے۔
داویؔد کا ماتم کرنا
19 اَور صدُوقؔ کے بیٹے اخِیمعضؔ نے کہا، ”مُجھے اِجازت دیں کہ دَوڑکر یہ خبر بادشاہ کے پاس لے جاؤں کہ یَاہوِہ نے اُنہیں اُن کے دُشمنوں سے رِہائی بخشی ہے۔“
20 لیکن یُوآبؔ نے اُس سے کہا، ”آج نہیں، یہ خبر کسی اَور وقت لے جانا۔ آج اَیسا ہرگز نہ کرنا کیونکہ مرنے والا بادشاہ کا بیٹا تھا۔“
21 تَب یُوآبؔ نے ایک کُوشی آدمی سے کہا، ”جا اَورجو کچھ تُونے دیکھاہے بادشاہ کو بتا۔“ وہ کُوشی یُوآبؔ کے سامنے جھُکا اَور پھر تیزی سے روانہ ہُوا۔
22 تَب اخِیمعضؔ بِن صدُوقؔ نے یُوآبؔ سے پھر کہا، ”خواہ کچھ ہو مہربانی کرکے مُجھے بھی اُس کُوشی کے پیچھے دَوڑ جانے دیں۔“
لیکن یُوآبؔ نے جَواب دیا، ”میرے بیٹے! تُو کیوں جانا چاہتاہے؟ یہ اَیسی خبر نہیں ہے جِس کے عوض تُجھے کویٔی اِنعام ملے گا۔“
23 اُس نے کہا، ”خواہ کچھ ہو۔ میں تو فرار ہونا چاہتا ہُوں۔“
لہٰذا یُوآبؔ نے کہا، ”اَچھّا! دَوڑجا!“ تَب اخِیمعضؔ اُس میدان سے ہوتا ہُوا دَوڑکر کُوشی سے آگے نکل گیا۔
24 اَور جَب داویؔد اَندرونی اَور بیرونی پھاٹکوں کے درمیان بیٹھے ہُوئے تھے تو اُس وقت پہرےدار فصیل کی دیوار پر چڑھ کر پھاٹک کی چھت پر گیا۔ جَب اُس نے نظر دَوڑائی تو دیکھا کہ ایک آدمی اکیلا دَوڑا آ رہاہے۔
25 پہرےدار نے پُکار کر بادشاہ کو یہ اِطّلاع دی۔
بادشاہ نے کہا: ”اگر وہ اکیلا ہے تو ضروُر کویٔی اَچھّی خبر لایا ہوگا۔“ اَور وہ آدمی دَوڑتا ہُوا نزدیک آ گیا۔
26 پھر پہرےدار نے دیکھا کہ ایک اَور آدمی دَوڑا چلا آ رہاہے۔ اُس نے نیچے دربان کو پُکار کر کہا: ”دیکھ ایک اَور آدمی اکیلا دَوڑا آ رہاہے!“
تَب بادشاہ نے کہا: ”وہ بھی ضروُر اَچھّی خبر لا رہا ہوگا۔“
27 پہرےدار نے کہا، ”مُجھے آگے والے شخص کا دَوڑنا صدُوقؔ کے بیٹے اخِیمعضؔ کے دَوڑنے کی طرح لگتا ہے۔“
بادشاہ نے کہا، ”وہ اَچھّا آدمی ہے اَور اَچھّی خبر لے کر آتا ہے۔“
28 تَب اخِیمعضؔ نے بادشاہ کو پُکار کر کہا، ”سَب کچھ ٹھیک ہے!“ اَور نزدیک آکر بادشاہ کے سامنے مُنہ کے بَل زمین پر جھُک کر کہنے لگا، ”یَاہوِہ آپ کے خُدا کی سِتائش ہو! جِن آدمیوں نے میرے آقا بادشاہ کے خِلاف ہاتھ اُٹھائے تھے، خُدا نے اُنہیں ہمارے حوالہ کر دیا ہے۔“
29 بادشاہ نے پُوچھا: کیا وہ جَوان اَبشالومؔ خیریت سے ہے؟
اخِیمعضؔ نے جَواب دیا کہ، ”جَب یُوآبؔ نے بادشاہ کے خادِم یعنی اِس خادِم کو روانہ فرمایا تو مَیں نے بڑی ہلچل دیکھی۔ مگر مُجھے مَعلُوم نہیں کہ وہ کیا تھی۔“
30 بادشاہ نے کہا: ”اَچھّا، اُدھر ایک طرف ہوکر کھڑا رہ۔“ لہٰذا وہ ایک طرف ہٹ گیا اَور وہیں کھڑا رہا۔
31 تَب اُس کُوشی نے آکر کہا، ”اَے میرے آقا بادشاہ! سُنیں، اَچھّی خبر یہ ہے کہ یَاہوِہ نے آپ کو اُن سَب سے نَجات بخشی ہے جنہوں نے آپ کے خِلاف بغاوت کی تھی۔“
32 تَب بادشاہ نے اُس کُوشی سے پُوچھا، ”کیا وہ جَوان اَبشالومؔ خیریت سے ہے؟“
اُس کُوشی نے جَواب دیا، ”میرے آقا بادشاہ کے سَب دُشمن اَور وہ سَب جو آپ کو نُقصان پہچانے کے لیٔے بغاوت کریں اُن کا حَشر اُس جَوان کی مانند ہو۔“
33 یہ سُن کر بادشاہ کا دِل دھک سے رہ گیا اَور وہ روتا ہُوا پھاٹک کے دروازہ کے اُوپر کمرہ کی طرف چل دیا۔ وہ چلتے چلتے یُوں کہتے جاتا تھا: ”ہائے میرے بیٹے اَبشالومؔ! میرے بیٹے، میرے بیٹے اَبشالومؔ! کاش تیرے بدلے میں مَرجاتا۔ اَے اَبشالومؔ، میرے بیٹے، میرے بیٹے!“